*دیوار مہربانی*
*محمد الیاس (20 جولائی 2022)*
علی اور فاطمہ کو موسم سرما کی چھٹیاں ہونے والی تھیں۔ ان کے ماموں نے انھیں اپنے گھر راول پنڈی لے جانے کا وعدہ کیا تھا۔ جوں ہی چھٹیوں کا اعلان ہوا، اگلے دن ماموں انھیں لینے آ گئے ۔ آئی نے دونوں کے لیے گرم کپڑے، کوٹ، مفلر بیگ میں ڈال دیے کہ وہاں زیادہ سردی ہو گی۔ پھر انھیں مری بھی تو جانا تھا تا کہ برف باری کا نظارہ بھی کر سکیں۔
جوں ہی بچے ماموں کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوئے تو ابو امی نے کہا کہ وہ انھیں چھٹیاں ختم ہونے سے پہلے واپس لینے آئیں گے۔ بچے ماموں کے ساتھ خوشی خوشی روانہ ہو گئے۔ شام کو بچے ماموں کے گھر پہنچے۔ نانا نانی، خالہ اور ماموں زاد عبد اللہ اور نادیہ پہلے ہی ان کا انتظار کر رہے تھے۔ ممانی نے ان کے لیے مزے دار کھانے بنائے تھے۔ سب نے مل کر کھانا کھایا۔ تھوڑی دیر ٹی وی پر کارٹون دیکھے اور پھر نانا نانی کے ساتھ سو گئے۔ نانی نے انھیں کہانی بھی سنائی۔
دو دن بعد اتوار تھا۔ سب کو مری جانا تھا۔ دن بھر کی سیر کا پروگرام تھا۔ ممانی نے کھانا پکا کر ساتھ رکھ لیا تھا۔ سب گاڑی میں بیٹھ گئے ، تو نانا جان بچوں کے ساتھ باتیں کرنے لگے۔ راستے میں تھوڑی دیر کے لیے گاڑی چتر پارک میں روکی گئی۔ سب نے اتر کر تصاویر بنائیں۔ سڑک کے دونوں طرف اونچے اونچے پہاڑ تھے۔ سر سبز پہاڑ اور وادیاں بہت دل کش منظر پیش کر رہی تھیں۔ نانا جان بچوں کو راستے میں آنے والے مناظر اور خاص خاص جگہوں کے بارے میں بتاتے جار ہے تھے۔ مری پہنچ کر بچے یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ سڑک کے دونوں طرف جگہ جگہ برف جمی ہوئی تھی۔ لوگوں نے کئی جگہوں پر برف کے مجسمے بھی بنائے ہوئے تھے۔
بازار سے ذرا باہر ایک دیوار کے ساتھ بہت بھیٹر تھی۔ بہت سے لوگوں کے ہاتھ میں گھریلو استعمال کی بہت سی چیز میں تھیں ، کسی کے پاس کپڑوں کا تھیلا، کسی کے پاس بر تن۔ کئی ایک فرنیچر ، جیسے: کرسیاں ، میز وغیرہ لائے ہوئے تھے۔ سب لوگ دیوار کے پاس جمع تھے۔ سڑک پر چونے سے نشان لگا دیا گیا تھا۔ لوگ آتے اور اس نشان کے اندر چیز میں رکھتے۔ کچھ کپڑے دیوار کے ساتھ لٹکائے گئے تھے۔ کچھ رسی باندھ کر لٹکائے گئے تھے۔ ان میں کچھ چیزیں تو استعمال شدہ تھیں جب کہ کچھ بالکل نئی لگ رہی تھیں۔ بچوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ یہاں سے چیزیں اٹھا کر بھی لے جارہے ہیں۔ کوئی منع نہیں کر تا نہ کوئی پیسے لیتا ہے۔ بچے حیران تھے کہ یہ ماجرا کیا ہے ؟ رایان نے دیکھا دیوار پر لکھا تھا دیوار مہربانی۔“ انابیہ سے نہ رہا گیا۔ آخر اس نے نانا سے پوچھ ہی لیا: ” نانا جان ! یہ سب کیا ہے ؟“
نانا: فاطمہ بیٹی ! یہ دیوار دراصل ”دیوار مہربانی ہے۔ یہ وہ جگہ ہوتی ہے، جہاں لوگ دوسروں کی مدد کی غرض سے اپنے گھروں سے چیز یں لا کر یہاں رکھ جاتے ہیں۔ ضرورت مند آکر یہاں سے چیز یں اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ لانے والے اپنی خوشی سے چیز یں یہاں رکھتے ہیں اور لینے والے اپنی ضرورت کے مطابق چیز یں اٹھالیتے ہیں۔ یہ دوسروں کی مدد کرنے کا بہت ہی عمدہ طریقہ ہے۔ لانے والا اللہ تعالی کی خوش نودی حاصل کر تا ہے اور لینے والا دعائیں دیتے ہوئے چیز یں لے جاتا ہے۔ نہ لانے والے کو پتا ہو تا ہے کہ میری چیز کون لے گیا، نہ لینے والے کو کہ یہ چیز کون لایا تھا، سب کچھ خاموشی سے ہو تا ہے۔
علی : نانا جان ! کیا ہم بھی اگر کسی کی مدد کر نا چا ہیں ، تو یہاں چیزیں رکھ سکتے ہیں ؟
نانا: کیوں نہیں بیٹا! ہم بھی یہاں رکھ سکتے ہیں اور چپکے سے دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں۔
علی : نانا جان ! ہمارے ہاں تو ایسی کوئی جگہ نہیں ، کیا ہم بھی اپنے محلے میں یہ کام کر سکتے ہیں ؟
نانا: بہت اچھی بات ہے ۔ کسی بھی جگہ کے لوگ آپس میں طے کر کے اس نیک کام کا آغاز کر سکتے ہیں۔ کسی بھی شہر، قصبے یا گاؤں کے لوگ مل کر یہ کام کر سکتے ہیں۔
فاطمہ : نانا جان ! کیا ہر روز لوگ یہاں آکر ایسا کرتے ہیں؟ نہیں بیٹی ۔ ان لوگوں نے ہفتے کا ایک دن مقرر کر رکھا ہے اور وقت بھی مقرر ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد آپ یہاں آئیں گے ، تو سب ختم ہو چکا ہو گا۔ دن اور وقت طے کر لینے سے سامان لانے اور لے جانے والوں کا وقت بچتا ہے۔
علی : نانا جان ! ہم اپنے محلے میں جمعہ کا دن مقرر کریں گے ۔ مسجد کے باہر گراؤنڈ میں جمعہ کی نماز کے بعد ۔
ماموں : ہاں بیٹا! میں محلے والوں سے اس بارے میں بات کروں گا۔ سب مل کر کریں گے تو ہمارے ارد گرد سب لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے میں مدد ملے گی۔ علی اور فاطمہ ایک ساتھ بولے ہم بھی اپنے دوستوں سے بات کریں گے۔ ہم اچھی اچھی نئی چیزیں جیسے ، کھلونے، کپڑے اور کتابیں، کاپیاں بھی رکھیں گے۔ عبداللہ اور ندا بول پڑے۔ نانا جان نے سب بچوں کو دعادی اور آگے چل دیے۔ واپسی پر دیکھا تو واقعی وہاں کچھ نہیں تھا۔
if you have any question ,please let me know