تحریر ✍️# راشد علی قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی
استاد کوئی عام آدمی کا نام نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے طلباء کو بادشاہ بنا دیتا ہے ۔معلم کا مقام ہی وہ ولولہ جذبہ ہے جس نے انسانیت کی منزلوں تک عمل کی منزلت دی۔استاد ہی ہے جس نے اچھی حکمت عملی اور اپنے تجربات سے وقت کی بیش مشکلات کی نظریات کو اقدامات پر عملی جامہ پہنچایا۔ہر دور کے فرد کو انسان بنایا۔ جس نے جابر بن حیان جیسی شخصیت کی تربیت کو معلم کی حیثیت سے کیا۔
استاد کا ادب, ترقی کا سبب ہےاستاد کی عظمت کو کل بھی سلام تھا آج بھی ہے اور آٸندہ بھی سلام
استاد بادشاہ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔
مگر بادشاہ بنا دیتا ہے۔۔۔۔۔۔
اپنے اساتذہ کی عزت کرنا سیکھو۔۔۔۔
کیونکہ آج تم اسکی بدولت یہ عبارت پڑھنے کے قابل بنا دیتا ہے
میرا استاد مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا۔۔۔
استاد کی عظمت کو ترازو میں نہ تولو
استاد تو ہر دور میں استاد ہوتا ہے....اور استادہی معاشرے کوزندگی کا سلیقہ اورمقصد سکھاتا،
سوچ اورفکرکی راہ متعین کرواتا اور زندگی کی گُتھیاں سلجھانے کے گُر بتاتا ہے۔
استاد محترم
آپ کی عظمت کو سلام۔۔۔۔۔۔۔
میری نظر سے ایک پوسٹ گزرا ۔جس میں کہا گیا Vip کون ۔۔۔۔تو ایک مفکر کے مطابق استاد کا مقام vip ہے۔بہت ہی اہمیت رکھنے والی شخصیت کا نام استاد ہے ۔استاد کی شخصیت سب سے افضل ہے مگر اگر وہ اپنے فرائض کو وقت پابندی سے انجام دے تو اس کا مقام تمام تر منصف سے اعلی ہے۔استاد جس فیلڈ میں ہوں اس کے پاس زندگی کے ہر تجربات ہوتے ہیں ۔میں جب اوشکھنداس میں زیر تعلم تھا تو اس وقت ہم استاد کو جس کوچے گلی میں دیکھتے تو احتراما ڈر کی وجہ سے چھپ جاتے تھے ۔کیونکہ ہمارا ڈر ہی تھا کہ جس میں اس کا احترام چھپا ہوا تھا۔میرا استاد ہر کلاس جے بعد یہ شعر ارشاد فرماتے تھے ۔۔
رنج سے خو گر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں پڑھی مجھے پر کہ اتنی آساں ہو گی۔
ہمارے والدین ہمیں روٹی کپڑا دیتے لیکن اچھا استاد ہمیں شاہین کی پرواز سکھا دیتا ہے۔اس کی ہمدردی اور احساس ہی ہوتی ہے جو دیگر سے ہمیں افضل بنا دیتی ہے ۔استاد تو اپنا گھر کا فرد جیسا لگتا تھا۔
موجودہ دور جدید میں استاد کا احترام ایک عام جیسی شخصیت کی ہوگئی ہے جو کہ شاگرد کے سامنے سے گزرتے مگر شاگردوں کو پرواہ تک نہیں ہوتی ۔کوتاہی ہماری ہی ہے وجہ دور جدید کے ان رنگین ذیست اور انٹرینٹ کی دنیا ہی وجہ کوتاہی ہے ۔استاد میرا منزل تک پہنچانے والی شخصیت ہے۔ایک حقیقی کہانی کی طرف لوٹ آتے ہیں کہ استاد شاگردوں سے کتنی محبت کرتے ہیں شادی کی تقریب میں ایک صاحب اپنے جاننے والے آدمی کے پاس جاتے ھیں اور پوچھتے ھیں۔۔ کیا آپ نے مجھے پہچانا؟"
انہوں نے غور سے دیکھا اور کہا "ھاں آپ میرے پرائمری سکول کے شاگرد ھو۔ کیا کر رھے ھو آج کل؟"
شاگرد نے جواب دیا کہ "میں بھی آپ کی طرح سکول ٹیچر ھوں۔اور ٹیچر بننے کی یہ خواہش مجھ میں آپ ھی کی وجہ سے پیدا ھوئی۔"
استاد نے پوچھا "وہ کیسے؟"
شاگرد نے جواب دیا، "آپ کو یاد ھے کہ ایک بار کلاس کے ایک لڑکے کی بہت خوبصورت گھڑی چوری ھو گئی تھی اور وہ گھڑی میں نے چرائی تھی۔ آپ نے پوری کلاس کو کہا تھا کہ جس نے بھی گھڑی چرائی ھے واپس کر دے۔ میں گھڑی واپس کرنا چاھتا تھا لیکن شرمندگی سے بچنے کے لئے یہ جرات نہ کر سکا۔
آپ نے پوری کلاس کو دیوار کی طرف منہ کر کے ، آنکھیں بند کر کے کھڑے ھونے کا حکم دیا اور سب کی جیبوں کی تلاشی لی اور میری جیب سے گھڑی نکال کر بھی میرا نام لئے بغیر وہ گھڑی اس کے مالک کو دے دی اور مجھے کبھی اس عمل پر شرمندہ نہ کیا۔ میں نے اسی دن سے استاد بننے کا تہیئہ کر لیا تھا۔"
استاد نے کہا کہ "کہانی کچھ یوں ھے کہ تلاشی کے دوران میں نے بھی اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں اور مجھے بھی آج ھی پتہ چلا ھے کہ وہ گھڑی آپ نے چرائی تھی۔
اس میں ایک ایسا سبق ہے جو کہ ماہرین اس پر اصلاحی تنقید بھی کرتے ہیں ۔کیونکہ جہاں ایک طالب علم کی حیثیت مجرو کی بات ہے ۔کم عقل تھا گھڑی چرائی مگر استاد نے وہ سبق سکھا دیا کہ وہ احساس کی شدید اور استاد سے محبت میں استاد کا پیشہ اختیار کرنا چاہتا ہے ۔واقعی استاد خود بادشاہ اور بادشاہوں کا بادشاہ ہے مگر اپنے طلباء کو شہنشاہ بنا دیتا ہے ۔ہر دور میں استاتذہ قابل قدر ہے ۔یہاں کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف اسکول والا ٹیچر استاد ہے تو یہ ان کی غلظ فہمی ہے ہر وہ شخص استاد کہلاتا ہے جو اس کی مشکلات میں راہنمائی کرتا ہے ۔ہر فیلڈ میں استاد جو کچھ سکھا کر اسکی علم میں معلم کی حیثیت میں اضافہ کرتا ہے چاہے وہ رسمی تعلیم کے ذریعے سے ہوں خواہ وہ نیم رسمی اور غیر رسمی تعلیم ہوں ۔مولا علی کا قول ہے ۔جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا وہ میرا ستاد ہے ۔
(Rashid Ali , Danyore Gilgit)
if you have any question ,please let me know