خیالِ پلاؤ

0

 خیالِ پلاؤ


پرانے زمانے کی بات ہے۔ عرب کے کسی گاؤں میں ایک خاندان رہتا تھا۔ میاں بیوی بہت ایمان دار اور محنتی تھے۔ اللہ نے انھیں ایک بیٹا دیا تھا۔ کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد باپ فوت ہو گیا۔ ماں بے چاری بہت محنت کرتی، وہ اپنے بیٹے کی ساری خواہشیں پوری کرتی۔ کھانے کو اچھی خوراک اور پہنے کو انچالباس دیتی۔ ماں کے لاڈ پیار کی وجہ سے وہ بہت کابل اور شست ہو گیا تھا۔ ہر وقت خیالی منصوبے بنا تار بتا جس کی وجہ


سے وہ لوگوں میں شیخ چلی کے نام سے مشہور ہو گیا۔ شیخ چلی ہر وقت سوتا رہتا اور کوئی کام دھندا نہ کرتا۔ امیر بننے کے لیے ایسے منصوبے بناتا جن کی کوئی حقیقت نہ ہوتی۔ ماں اس کے خیالی منصوبوں کی وجہ سے بہت پریشان رہتی۔ ماں جو بھی کام کرنے کا کہتیشیخ چلی اسے اپنے خیالی پلاؤ پکانے کی وجہ سے خراب کر دیتا۔ ایک دن اس کی ماں نے اسے انڈوں سے بھری ٹوکری دی کہ بیٹا! اسے بازار جا کر نیچے آؤ۔ شیخ چلی نے انڈوں کی ٹوکری اٹھائی اور ماں کو تسلی دیتاہوا بازار کی طرف چل پڑا۔


گرمی کا موسم تھا اسے تھوڑا پسینا آیا۔ شیخ چلی ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا اور ٹوکری پاس رکھ لی۔ درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھے بیٹھے وہ سوچنے لگا کیوں نہ انڈے بیچنے کے بجائے انھیں مرغی کے نیچے رکھ دوں ان سے بچوزے نکلیں۔ ان سے مرغیاں بنیں ، پھر میں مرغیاں بیچوں تو زیادہ پیسے ملیں گے۔ نہیں نہیں میں ان مرغیوں کو نہیں بیچوں گا۔ وہ انڈے دیں گی پھر ان انڈوں سے چوڑے نکلیں گے یوں میرے پاس بہت زیادہ مرغیاں ہو جائیں گی۔ ان مرغیوں کو بیچ کر میں گائے بھینس لے لوں گا۔ ان سے دودھ حاصل کر کے مکھن اور بھی بناؤں گا۔ ان کے بچے پالوں گا۔ جب بہت سی گائیں بھینسیں میرے پاس ہوں گی تو ان کو بیچ کر میں ایک بڑا سا گھر خریدوں گا۔ پیسے ہوں گے تو کاروبار بھی کروں گا۔ میرا کاروبار چل پڑے گا تو لوگ مجھے عزت دیں گے۔ میں بہت مشہور ہو جاؤں گا۔

شیخ چلی نے سوچا پھر میں شادی کروں گا۔ میری ایک پیاری سی بیوی ہو گی۔ میرے بچے بھی ہوں گے۔ پیارے پیارے بچے بڑے سے گھر کے صحن میں کھیلا کریں گے ، بہت مزہ آئے گا۔ کتنی خوشی ہو گی جب میری بیوی اور میں بیٹھے ہوں گے اور بچے کھیل رہے ہوں گے۔ ایسے میں اگر بیوی کی کسی بات پر مجھے فضہ آ گیا تو ایک لات اس کو دے ماروں گا۔ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی ایک ٹانگ گھمائی اور انڈوں کی ٹوکری الٹ دی۔ سارے انڈے ٹوٹ گئے۔ وہ مٹھ بنا کر رونے لگا۔ گھر پہنچاتوماں نے پوچھا: ” پیسے کہاں ہیں ؟ “ماں کو غصے میں دیکھ کر کہنے لگا:” میراکوئی قصور نہیں، میں نے بیوی کو لات ماری تھی ، انڈے پتا نہیں کیسے ٹوٹ گئے ۔ ماں سمجھ گئی کہ بیٹے نے پھر کوئی خیالی پلاؤ پکایا ہو گا۔ اس نے پیار سے سمجھایا: بیٹا کا میابی چاہتے ہو تو محنت کرنا ہو گی۔ محنت ہی میں عظمت ہے “۔ اس وقت سے آج تک جو بھی شخص خیالی پلاؤ پکاتا ہے لوگ اسے ”شیخ چلی کہتے ہیں۔

(Altaf , giglit)

Post a Comment

0Comments

if you have any question ,please let me know

Post a Comment (0)
To Top